یوکرین
یوکرین Ukraine Україна (یوکرینی) | |
---|---|
![]() | |
ترانہ: | |
![]()
| |
دارالحکومت and largest city | کیئف متناسقات: |
سرکاری زبانیں | یوکرینی زبان |
نسلی گروہ (2001) |
|
مذہب (2018) |
|
آبادی کا نام | یوکرینی |
حکومت | وحدانی ریاست نیم صدارتی جمہوریہ |
ولودومیر زیلینسکی | |
• وزیر اعظم | Denys Shmyhal |
• Chairman of the Verkhovna Rada | Ruslan Stefanchuk |
مقننہ | یوکرینی اعلیٰ کونسل |
قیام | |
882 | |
• Kingdom of Ruthenia | 1199 |
• Cossack Hetmanate | 18 اگست 1649 |
• Ukrainian People's Republic | 10 جون 1917 |
• Declaration of independence of the Ukrainian People's Republic | 22 جنوری 1918 |
• West Ukrainian People's Republic | 1 نومبر 1918 |
• اتحاد کا ایکٹ | 22 جنوری 1919 |
• سوویت یونین سے علاحدگی | 24 اگست 1991 |
• ریفرنڈم | 1 دسمبر 1991 |
• موجودہ آئین | 28 جون 1996 |
• Revolution of Dignity | 18–23 فروری 2014 |
رقبہ | |
• کل | 603,628 کلومیٹر2 (233,062 مربع میل) (45th) |
• پانی (%) | 7 |
آبادی | |
• جنوری 2022 تخمینہ | ![]() (excluding جزیرہ نما کریمیا and سواستوپول) (36th) |
• 2001 مردم شماری | 48,457,102 |
• کثافت | 73.8/کلو میٹر2 (191.1/مربع میل) (115th) |
جی ڈی پی (پی پی پی) | 2022 تخمینہ |
• کل | ![]() |
• فی کس | ![]() |
جی ڈی پی (برائے نام) | 2022 تخمینہ |
• کل | ![]() |
• فی کس | ![]() |
جینی (2019) | ![]() low |
ایچ ڈی آئی (2019) | ![]() ہائی · 74th |
کرنسی | Hryvnia (₴) (UAH) |
منطقۂ وقت | یو ٹی سی+2 (مشرقی یورپی وقت) |
• گرمائی (ڈی ایس ٹی) | یو ٹی سی+3 (مشرقی یورپی گرما وقت) |
ڈرائیونگ سائیڈ | دائیں |
کالنگ کوڈ | +380 |
آویز 3166 کوڈ | UA |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی |
|
یوکرین (یوکرینی: Україна، Ukraïna، ( سنیے)) مشرقی یورپ میں ایک ملک ہے
یہ روس کے بعد رقبہ کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جن کی سرحدیں مشرق اور شمال مشرق سے ملتی ہیں۔
یوکرین کی سرحدیں شمال میں بیلاروس کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔ جبکہ مغرب میں پولینڈ، سلوواکیہ، اور ہنگری، جنوب میں رومانیہ اور مالدووا اس کے ہمسایہ ممالک، اور بحیرہ ازوف اور بحیرہ اسود کے ساتھ ایک ساحلی پٹی بھی ہے۔
یہ 603,628 مربع کلومیٹر (233,062 مربع میل) کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، 41.2 ملین کی آبادی کے ساتھ یہ یورپ کا آٹھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ملک کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر کیئف ہے۔
یوکرین 1920ء سے 1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھا، جس نے 16 جولائی 1990ء کو یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تقریباً ایک سال بعد 24 اگست 1991ء کو یوکرین نے خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان بھی کر دی
ا۔
24 فیبروری 2022ء کو روس نے یوکرین کو بھاری نقصان پہچانے کا دعوہ کیا۔
یوکرین روس تنازع
5 کروڑ پر مشتمل ایک عیسائی المذہب ملک یوکرین نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے دیگر پریشر گروپس اور مغرب کی حمایت کرنے والے گروہوں میں تنازعات کا آغاز ہو گیا۔
اسی عرصے میں روس اور امریکا کے درمیان میں سرد جنگ بھی جاری رہی۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکا نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان میں سے تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔
2014ء آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014ء روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا۔
2014ء میں یوکرین کے صدر وکٹر ینوکووچ تھے، جن کا جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگئے۔
اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں وکٹوریا نوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران یوکرین کے مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر مامور سکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔ اسے بنیاد بنا کر روس نے کرائیمیا پر چڑھائی کر دی جو تب سے روس کے کنٹرول میں ہے۔
کرائمیا پر روس کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یوکرین کے علیحدگی پسند گروپوں نے بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی اور حالات نے خانہ جنگی کی سی صورت حال اختیار کرلی۔
روس نے الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک کی حمایت سے مسلح جتھے روسی النسل علاقوں میں خونریزی کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے موقف اختیار کیا کہ روسی حمایت سے شر پسند عناصر یوکرین میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔
دونوں اطراف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 14 ہزار افراد خانہ جنگی میں مارے گئے۔
2015 میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام متعلقہ گروہوں میں معاہدہ تو ہوگیا لیکن جھڑپیں جاری رہیں۔
ایسی ہی جھڑپوں میں 2021ء کے اواخر میں شدت آ گئی۔
حالات پر نظر رکھے امریکا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روس ایک مرتبہ پھر یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے جنگ کے نقطہ آغاز کی تاریخیں بھی دی جانے لگیں۔
امریکا، روس اور مغربی ممالک کے درمیان میں اعلیٰ سطح پر رابطے جاری رہے لیکن 22 فروری کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا۔
روسی صدر نے اپنے خطاب میں یوکرین کی موجودہ حکومت کو مغرب کی کٹھ پتلی قرار دیا اور اپنی وزارت دفاع سے ڈونیسک اور لوہانسک کی آزاد ریاستوں میں امن قائم رکھنے کے لیے فوجیں بھجوانے کا حکم دیا۔
روس کے اس اقدام پر سب سے شدید رد عمل روایتی حریف امریکا نے دیا ہے، جس کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ ’اس عمل کا فوری اور مضبوط جواب دینا چاہیے۔‘
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین سے الگ ہونے والی دو ’ریاستوں‘ میں اپنی فوج بھیجنے کی وجہ سے روس پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔
23 فروری [[2022ء[[ کو روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئف پر حملہ کر دیا،